۶ آذر ۱۴۰۳ |۲۴ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 26, 2024
News ID: 404779
26 نومبر 2024 - 07:00
قنبر رضوان نوری

حوزہ/اگر ہم قرآن کی حقیقت  کو مدنظر رکھیں گے تو ہم یہ پاتے ہیں کہ قرآن فطرت کی زبان میں نازل ہوا ہے، شہید مرتضیٰ مطہری بھی اپنی کتاب  آشنایی با قرآن کی پہلی جلد میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن کی ایک اور زبان ہے اور وہ زبان، زبانِ دل ہے اور فرماتے ہیں کہ دل سے ہماری مراد ایک بہت عمیق اور گہرا احساس ہے جو انسان کے اندر موجود ہے، اور بعض اوقات اسے "احساس ہستی" بھی کہا جاتا ہے۔

تحریر: قنبر رضوان نوری

حوزہ نیوز ایجنسی| قرآن مجید خداوند متعال کی کتاب ہے جو خدائے مہربان کی جانب اور حضرت جبرائیلؑ کے توسط سے پیغمبرِ گرامی حضرت محمد مصطفیٰ(ص) پر نازل کی گئی، تاکہ انسان کو حق کی طرف رہنمائی کرے۔ یہ کتاب حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کا ابدی معجزہ ہے، جو ہر قسم کے عیب سے مبرّا ہے ۔ قرآن حکیم ان تمام کلمات، احکام اور اخلاق کا مجموعہ ہے جو رسول خدا (ص) پر انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کیا گیا۔

اس میں کسی قسم کا شک نہیں کہ قرآن کو بظاہر عربی زبان میں نازل کیا گیا جو قرآن کی لفظی زبان ہے، جیسے کہ قرآن کریم بھی اسی طرف اشارہ کرکے فرماتا ہے کہ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا "ہم نے اسے عربی زبان میں نازل کیا۔ (یوسف، 2)

قرآن کو عربی زبان میں ہی کیوں نازل کیا گیا، اس پر علماء اور دانشوروں نے بہت سی دلائل دی ہیں، شاید اس کا راز یہ ہے کہ عربی زبان میں اتنی وسعت ہے جو دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ہے۔ مگر جو غور طلب بات ہے وہ یہ ہے کہ حقیقت میں قرآن کی زبان کوئی خاص یا محدود زبان نہیں ہے، بلکہ حقیقت میں قرآن اس زبان میں ہے جو انسان کی تخلیق کے وقت انسان کے وجود میں ہی رکھی گئی، یعنی وہ زبان جس سے انسان کی خمیر کو تیار کیا گیا یعنی انسان کو اسی نوع پر خلق کیا گیا، یہ وہی زبان ہے جس میں خداوند متعال نے بنی نوع آدم سے ان کی تخلیق کے وقت ان سے بات کی وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَٰذَا غَافِلِينَ "اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکلا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بناکر (پوچھا تھا) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے کہا تھا ہاں (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، یہ اس لیے ہوا تھا کہ قیامت کے دن تم یہ نہ کہہ سکو گے کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے(اعراف ، 172) پس اسی زبان پر انسان کو خلق کیا گیا اور اسی کو ہم فطرت کہتے ہیں۔ فطرت "فَطَرَ" سے ہے، جس کے معنی خلق کرنے کے ہیں اور خود فطرت کے معنی سرشت کے ہیں جو مصدر نوعی ہے پس اس حساب سے فطرت ایک خاص نوع میں خلق کرنے کے معنی پر دلالت کرتا ہے پس فطرت کا مطلب یہ ہے کہ خداوند متعال نے انسان کو ایک خاص نوع کی صورت میں خلق کیا ہے۔ فطرت خدادادی ہے یعنی یہ ہر انسان کی سرشت میں پہلے سے ہی ہے اس کو کسب نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی نابود کیا جاسکتا ہے، اس کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ کسی خاص زمان اور مکان کی قید نہیں رکھتی، بلکہ جاودانی ہے۔ قرآن کریم اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ" پس (اے نبی) یکسو ہوکر اپنا رخ دین حنیف کی طرف مرکوز رکھیں (یعنی) اللہ کی اس فطرت کی طرف جس پر اس نے سب انسانوں کو خلق کیا ہے، اللہ کی تخلیق میں تبدیلی نہیں ہے۔ (سورہ روم، 30)۔
اگر ہم قرآن کی حقیقت کو مدنظر رکھیں گے تو ہم یہ پاتے ہیں کہ قرآن فطرت کی زبان میں نازل ہوا ہے، شہید مرتضیٰ مطہری بھی اپنی کتاب آشنایی با قرآن کی پہلی جلد میں اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قرآن کی ایک اور زبان ہے اور وہ زبان، زبانِ دل ہے اور فرماتے ہیں کہ دل سے ہماری مراد ایک بہت عمیق اور گہرا احساس ہے جو انسان کے اندر موجود ہے، اور بعض اوقات اسے "احساس ہستی" بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی حقیقت میں قرآن کو اس زبان میں خداوند متعال نے نازل کیا جو انسان کی تخلیق کے وقت انسان کے وجود میں ہی رکھی گئی تھی اور یہ زبان بنی نوع آدم کی خمیر اور ذات سے ہمساز ہے، یعنی قرآن کی زبان اور انسان کی فطرت میں کسی بھی قسم کا امتیاز نہیں پایا جاتا، بلکہ یہ دونوں آپس میں سازگار ہیں۔
جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن کلام خدا ہے، سب سے پہلے ہم سمجھتے ہیں کہ خود کلام کا کیا مطلب ہے؟ کلام در حقیقت افہام و تفہیم ہے، یعنی کلام میں متکلم اپنے معنی اور مقصود کو مخاطب تک منتقل کرتا ہے، تاکہ مخاطب متکلم کے مقصود کو سمجھ سکے، دوسرے الفاظ میں متکلم اپنے معنی کو مخاطب تک پہنچاتا ہے، تاکہ مخاطب اس معنی کو درک کرسکے، اسی کو ہم کلام کہتے ہیں چاہیے یہ معنی کا انتقال الفاظ کی صورت میں ہو یا کسی اور صورت میں ہو ۔
آیہ فطرت اور آیہ میثاق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خداوند متعال نے تک تک انسانوں سے کلام کیا ہے۔ جیسا کہ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ، کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں سب نے کہا ہاں (تو ہمارا رب ہے) آیہ واضح کرتی ہے کہ یہ مکالمہ آمنے سامنے ہوا ہے، لیکن کلام خداوند اس طرح نہیں ہے، جس طرح کلام انسان ہے، کیونکہ انسان کلام کے لیے اپنا گلہ، زبان اور الفاظ استعمال کرتا ہے اور انسان انہیں اوزار سے اپنے معنی کو اپنے مخاطب تک منتقل کرتا ہے، انسان انتقال معنی کے لیے ان چیزوں کا محتاج ہے، مگر ذات اقدس الٰہی نہ زبان رکھتی ہے اور نہ گلہ تاکہ ان کا استعمال کر کے اپنے معنی کو منتقل کرے اور ان کا محتاج ہو، بلکہ ذات اقدس الٰہی کسی بھی چیز کی محتاج نہیں ہے اور وہ ان سے مبرّا ہے، ذات اقدس الٰہی مختلف راستوں سے اپنے معنی کو مخاطب تک منتقل کرتی ہے۔ انہیں دو آیات کے زیر امام صادق ؑ کی ایک حدیث کتاب کافی میں ہے "جعل فیهم ماذا سالهم اجابوه یعنی فی میثاق"یعنی خداوند متعال نے ان کے اندر ایک چیز کو رکھا اگر اس سے پوچھا جائے وہ اسے جواب دے گی۔
پس خود یہ دو آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خداوند متعال نے انسانوں کو اپنا مخاطب بناکر اپنے مقصود کو فطرت کے قالب میں ڈال کر انسانوں تک منتقل کیا، یعنی انسان کی فطرت میں وہ مقاصد ہیں جو خداوند متعال ہم انسانوں تک منتقل کرنا چاہتا ہے۔ پس قرآن کریم کی حقیقت اور فطرت دونوں آپس میں مطابقت رکھتی ہیں یعنی جو کچھ بھی قرآن میں ہے وہ فطرت سے مطابقت رکھتا ہے اور جو کچھ بھی فطرت میں ہے وہ قرآن سے مطابقت رکھتا ہے ۔
قرآن انسانوں کے لیے ہدایت کی کتاب ہے، جیسا کہ خود قرآن نے متعدد بار اسی کی طرف اشارہ کیا ہے: سورۂ اسرا میں یوں ارشاد ہوا ہے: إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ" یہ قرآن یقیناً اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھی ہے" (اسرا، 9) اسی طرح دوسری جگہ قرآن کریم کا ارشاد ہے: يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ " جس کے ذریعے اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے جو اس کی رضا کے طالب ہے۔ (مائدہ، 16) قرآن کریم سورۂ نحل میں بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ"ہم نے آپ پر یہ کتاب ہر چیز کو بڑی وضاحت سے بیان کرنے والی اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر نازل کی ہے۔ (نحل،89) یعنی اس کتاب کو اس لیے ہی نازل کیا گیا ہے، تاکہ یہ انسانوں کو راہ سعادت کی طرف ہدایت کرے، تو اس کا ایک ایک لفظ انسان کی فطرت سے ہماہنگ ہونا چاہیے، اگر ایسا نہ ہوگا تو یہ نقص غرض ہے، کیونکہ اگر یہ کتاب انسان کی ذات سے ہمساز نہیں ہوگی تو قرآن انسان کی ہدایت نہیں کرسکتا، کیونکہ قرآن کچھ کہتا ہوگا اور انسان کی ذات بالکل اس کے برعکس ہوگی اور دونوں کا آپس میں امتیاز ہوگا، یہ قرآن کے ہدف کے منافی ہے۔ تو ماننا پڑے گا کہ قرآن فطری زبان میں نازل ہوا ہے جو انسان کی فطرت کے ساتھ سازگار ہے۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا: اس کتاب کو اسی زبان میں نازل کیا گیا ہے، جس سے انسان کی خلقت کو ترسیم کیا گیا۔
فطرت ہدایت کا چراغ ہے جو انسان کو سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرتی ہے، علمائے اسلام خدا شناسی کی ابحاث میں جو سب سے پہلا برہان خداوند متعال کے اثبات کے لیے اقامہ کرتے ہیں وہ برہان فطرت ہے۔ فلاسفر اور متکلمین اسلامی برہان فطرت کو منفرد نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ خداوند متعال کی شناخت اور معرفت کے سلسلے میں بھی فطرت کا کردار یہی ہے کہ جس وقت انسان اس مادی سرگرمی کو چھوڈ کر اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے دل و جان میں جھانکتا ہے، اپنے اندر نگاہ کرتا ہے تو اس کو اپنے وجود میں ایک نور دکھائی دیتا ہے جو اس کو اس کے رب اور صاحب علم و قدرت کی طرف سے دعوت دیتا ہے، اس حقیقت کی طرف بلاتا ہے جو کمال مطلق ہے، یعنی چراغِ فطرت بھی انسان کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے اور اسے اسی راستے پر ہی گامزن کرتا ہے، مگر شرط یہ ہے کہ انسان اس روزمرہ کے مشغلے سے دور ہوکر اپنے اندر نگاہ کرے۔ حضرت علامہ مصباح یزدی علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ یہ جو فطری خدا شناسی ہے یہ دو طرح کی ہے ایک حضوری اور ایک حصولی۔ فطری طور پر خدا کی حضوری معرفت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو اس طرح پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے دل کی گہرائی میں ہی خدا کے ساتھ ایک وجودی تعلق کو رکھا گیا ہے، اگر وہ اپنے دل کی گہرائی میں جھانک کر تلاش کرے تو اسے یہ تعلق مل جائے گا۔ فطری طور پر خدا کی حصولی معرفت کا مطلب یہ ہے: ایک انسان کسی بھی فکری اور عقلی تلاش اور پیچیدگی کے بغیر خدا داد عقل سے خدا کے وجود کو آسانی سے درک کر سکتا ہے۔ شناخت فطری حصولی اور حضوری ہے۔ قرآن مجید بھی سورۂ محمد (ص) میں اسی نکتے کی طرف اشارہ کر کے فرماتا ہے: أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَىٰ قُلُوبٍ أَقْفَالُهَا"کیا یہ لوگ قرآن میں تدبر نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر تالے لگ گئے ہیں؟ (سورۂ محمد، 24) یہ جو قرآن فرما رہا ہے کہ دلوں پر تالے لگ گئے ہیں، یعنی انسان نے اپنی فطرت کے چراغ کو خاموش کیا ہے اگر اپنی فطرت کے چراغ کو خاموش نہ کیا ہوتا تو یہ قرآن میں تدبر کرتے تاکہ روشنی اور حق و ناحق میں تمیز سکے، یہ قرآن میں تدبر اور تعقل ہے جو انسان کو اچھے اور برے میں تمیز کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ قرآن کئی آیتوں میں بارہا ہم انسانوں کو تفکر، تعقل اور تدبر کی طرف دعوت دیتا ہے، تاکہ انسان اپنی فطری عقل سے استفادہ کر کے راہ ہدایت کو درک کرسکے اور اچھے اور برے میں تمیز کر سکے یعنی قرآن اور عقل دونوں کی راہ ایک ہی ہے اور وہ ہدایت انسانی ہے۔
اسلامی قوانین فطری ہیں، یعنی اسلام کا ہر قانون فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہے، یعنی اسلام کا ایسا کوئی قانون نہیں جو انسان کی فطرت سے متصادم ہو، جنتے بھی قوانین یا اخلاقی نکات قرآن میں بیان ہوئے ہیں وہ سب کے سب انسان کی فطرت کے ساتھ مانوس ہیں وہ کسی بھی صورت میں انسان کی فطرت کے ساتھ متصادم نہیں ہیں، کیونکہ اول خداوند متعال حکیم اور دانا ہے، اس کا ہر عمل حکمت سے لبریز ہے اگر قوانین اسلام انسان کی فطرت سے ہمساز نہیں ہوتے تو یہ حکمت خداوندی کے خلاف ہے، کیونکہ ایک جانب سے انسان کو ایک خاص فطرت پر خلق کیا اور دوسری جانب اس کی نظم حیات کے لیے ایسے قوانین اختراع کیے جو اس کی فطرت کے منافی ہیں، ایسے قوانین جو فطرت انسانی کے خلاف ہو کوئی حکیم اور دانا اختراع نہیں کرسکتا، پس ماننا پڑے گا کہ قوانین اسلام بھی انسان کی فطرت کے ساتھ مانوس ہیں۔ دوم یہ کہ ایسا کرنا ظلم ہے کیونکہ انسان کی فطرت میں عشقِ کمال ہے یعنی انسان فطری طور پر کمال کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اگر خداوند متعال نے ایسے قوانین بنائے جو انسان کی فطرت سے منافی ہوں تو انسان ان قوانین پر عمل پیرا ہوکر کمال کو حاصل نہیں کر سکتا ہے، جس سے اسے فطری طور پر حاصل کرنا تھا ایسی حالت میں اسے عقاب کرنا ظلم ہے ۔
پس جیسا کہ بیان ہوا کہ فطرت بھی انسان کو راہ مستقیم کی ہدایت کرتی ہے اور یہ بھی بیان ہوا کہ قرآن کی زبان فطری ہے، یعنی انسان کی فطرت میں پہلے سے ہی یہ زبان موجود ہے، یہ کتاب سب انسانوں کے لیے ہے اور یہ کتاب سارے انسانوں سے مخاطب ہوکر کلام کرتی ہے۔ قرآن کا کلام کسی بھی انسان کے لیے انجان اور نامانوس نہیں ہے، بلکہ ہر انسان اس کلام سے مانوس ہے، پس قرآن ہر انسان کے لیے قابلِ فہم و درک ہے۔ دوسری بات چونکہ فطرت جاودانی ہے تو اسی طرح پیغام قرآن بھی جاودانی ہی ہے اس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں اور نہ ہی اس میں زمان اور مکان کی قید ہے، بلکہ قرآن فطرت کی طرح ہر قسم کی قید سے مبرّا ہے، جیسا کہ قرآن کریم بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا"ہم نے آپ کو تمام انسانوں کے لیے فقط بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا"(سورۂ سبا، 28) اور اسی طرح ایک اور جگہ فرماتا ہے کہ تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَىٰ عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا" بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا تاکہ وہ سارے جہاں والوں کے لیے انتباہ کرنے والا ہو" (سورۂ فرقان،1) پس قرآن کی یہ آیات، فطرت کی طرح قرآن کے جاودانی ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، یہاں پر یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ برصغیر میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عام لوگوں کو قرآن ترجمہ کے ساتھ نہیں پڑھنا چاہیے، کیونکہ ان کی سمجھ میں قرآن نہیں آسکتا اور وہ خود سے پڑھ کر گمراہ ہوسکتے ہیں تو اس حساب سے جو لوگ عربی ممالک میں رہتے ہیں انہیں تو پھر قرآن ہی نہیں پڑھنا چاہیے، کیونکہ وہ تو عربی جانتے ہیں پھر وہ قرآن پڑھ کر گمراہ ہوسکتے ہیں۔ دوم یہ کہنا نقص غرض ہے، کیونکہ قرآن آیا ہی بنی نوع آدم کے لیے ہے نہ کہ فقط خواص کے لیے، اب اگر قرآن یا اس کا ترجمہ پڑھنا نہیں چاہیے تو یہ کیسے ہدایت کی کتاب بن سکتی ہے۔ ہاں بالکل آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پڑھیں اور اس میں تدبر کریں جہاں سمجھ نہ آئے اہل ذکر سے سوال کریں نہ کہ فتویٰ دیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .